اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم
جس سے ملنا چاہتے ہیں اس سے کتراتے ہیں ہم
لوگ تجھ کو بے وفا کہتے ہیں ان سے کیا گلہ
رنگ دنیا دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں ہم
یہ نمی آنکھوں کی سینے کی جلن جاتی نہیں
تیری محفل میں بھی تنہائی سے گھبراتے ہیں ہم
مڑ کے دیکھا تھا تو سارا شہر پتھر ہو گیا
لوٹ کر آئے تو ہر پتھر سے ٹکراتے ہیں ہم
کیوں زمانے بھر کی خوشیوں سے ہے کوئی غم عزیز
آئنہ کے پاس آؤ تم کو سمجھاتے ہیں ہم

غزل
اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم
مصحف اقبال توصیفی