EN हिंदी
اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم | شیح شیری
ab kisi ko dekh kar ek samt muD jate hain hum

غزل

اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم

مصحف اقبال توصیفی

;

اب کسی کو دیکھ کر اک سمت مڑ جاتے ہیں ہم
جس سے ملنا چاہتے ہیں اس سے کتراتے ہیں ہم

لوگ تجھ کو بے وفا کہتے ہیں ان سے کیا گلہ
رنگ دنیا دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں ہم

یہ نمی آنکھوں کی سینے کی جلن جاتی نہیں
تیری محفل میں بھی تنہائی سے گھبراتے ہیں ہم

مڑ کے دیکھا تھا تو سارا شہر پتھر ہو گیا
لوٹ کر آئے تو ہر پتھر سے ٹکراتے ہیں ہم

کیوں زمانے بھر کی خوشیوں سے ہے کوئی غم عزیز
آئنہ کے پاس آؤ تم کو سمجھاتے ہیں ہم