اب خزاں آئے یا بہار آئے
کوئی موسم تو سازگار آئے
ہم نے ہاری تھی عشق کی بازی
لوگ تو حوصلے بھی ہار آئے
رکھ کے اس در پہ سر اٹھاتے کیا
آج یہ بوجھ بھی اتار آئے
اب وہ لمحے ہیں راستوں کے چراغ
تیری دھن میں جو ہم گزار آئے
ہے یہ شعلہ تو کوئی بات نہیں
دل اگر ہے تو پھر قرار آئے
سوزؔ پل پل بدلتی دنیا پر
کس طرح دل کو اعتبار آئے

غزل
اب خزاں آئے یا بہار آئے
سوز نجیب آبادی