اب کے یارو برکھا رت نے منظر کیا دکھلائے ہیں
جلتے بجھتے چہرے ہیں اور مدھم مدھم سائے ہیں
آج بھی سورج کے بجھتے ہی ہلکی گہری شام ہوئی
آج بھی ہم نے تنہا گھر میں انگارے دہکائے ہیں
کون کسی کا دکھ سکھ بانٹے کون کسی کی راہ تکے
چاروں جانب چلتے پھرتے خود غرضی کے سائے ہیں
ان کی یاد میں پہروں رونا اپنی یہی بس عادت ہے
لوگ بھی کیسے دیوانے ہیں ہمیں ہنسانے آئے ہیں
ہم پیاسوں کے دل میں آگ لگانے کا ہے شوق حسنؔ
یا پھر بادل آج کسی کی زلفیں چھونے آئے ہیں
غزل
اب کے یارو برکھا رت نے منظر کیا دکھلائے ہیں
حسن رضوی