اب کے قمار عشق بھی ٹھہرا ایک ہنر دانائی کا
شوق بھی تھا اس کھیل کا ہم کو خوف بھی تھا رسوائی کا
بس وہی اک بے کیف اداسی بس وہی بنجر سناٹا
سو سو رنگ ملن کے دیکھے ایک ہی رنگ جدائی کا
پیار کی جنگ میں یارو ہم نے دو ہی خدشے دیکھے ہیں
پہلے پہل تھا خوف اسیری اب ہے خوف رہائی کا
اپنی ہوا میں یوں پھرتا تھا جیسے بگولہ صحرا میں
ہم نے جب دیکھا تو عجب تھا حال ترے سودائی کا
اجنبی چہرے تکتے رہنا شہر کی چلتی راہوں پر
اپنی سمجھ میں اب آیا ہے یہ پہلو تنہائی کا
آنکھیں اپنی بند تھیں جب تک حال پہ اپنے روئے بہت
آنکھ کھلی تو دیکھا حال یہی تھا ساری خدائی کا
دل کی زمیں پر بوئے تھے باقرؔ بیج جو درد جدائی کے
چلئے اب وہ فصل کھڑی ہے وقت آیا ہے کٹائی کا

غزل
اب کے قمار عشق بھی ٹھہرا ایک ہنر دانائی کا
سجاد باقر رضوی