اب کے ملے تو ہم دونوں ہی
خود کی تجھ سے بات کریں گے
خود کی خود سے باتیں کر کے
ہم دونوں اکتا بھی چکے ہیں
تیرے خیالوں میں ڈوبے تو
دنیا ساری گھوم لی ہم نے
در پہ اک دستک جو ہوئی تو
ہم کو یہ معلوم ہوا کے
کب سے ہم گھر آ بھی چکے ہے
راتوں کو جگتے رہنا بھی
خوابوں سے بچتے رہنا بھی
آنکھوں کی مجبوری ہوگی
آنکھوں کے قصے سے ہم تو
اپنی آنکھ بچا بھی چکے ہیں
اس موسم کا کیا ہے پرسوں
نرسوں یہ بھی چل ہی دے گا
ایک گلہ بس تم سے ہے کہ
اس موسم میں آئے ہو جب
خود کو ہم بہلا بھی چکے ہیں
گھر کے ہر کونے سے اب بھی
مہک ہماری چنتے ہو گے
یادوں کے پشمینہ سے تم
کل کو پل پل بنتے ہو گے
لیکن سچ تو یہ ہے ساتھی
ہم تو کب کے جا بھی چکے ہیں
غزل
اب کے ملے تو ہم دونوں ہی (ردیف .. ن)
رینو نیر