اب کے موسم میں کوئی خواب سجایا ہی نہیں
زرد پتوں کو ہواؤں نے گرایا ہی نہیں
دیکھ کر جس کو ٹھہر جائیں مسافر کے قدم
ایسا منظر تو کوئی راہ میں آیا ہی نہیں
کیوں ترے واسطے اس دل میں جگہ ہے ورنہ
کوئی چہرہ مری آنکھوں میں سمایا ہی نہیں
اس نے بھی مانگ لیا آج محبت کا ثبوت
ایک لمحے کے لیے جس کو بھلایا ہی نہیں
مجھ کو تنہائی نے گھیرا ہے کئی بار مگر
اس کی یادوں نے مگر ساتھ نبھایا ہی نہیں
جس کی خوشبو سے مہکتے مرے گھر کے در و بام
وقت نے رنگ کوئی ایسا دکھایا ہی نہیں
روشنی اپنے مقدر کہاں ہوگی شبینؔ
جب دیا ہم نے اندھیروں میں جلایا ہی نہیں

غزل
اب کے موسم میں کوئی خواب سجایا ہی نہیں
شبانہ زیدی شبین