EN हिंदी
اب کے جنوں ہوا تو گریباں کو پھاڑ کر | شیح شیری
ab ke junun hua to gareban ko phaD kar

غزل

اب کے جنوں ہوا تو گریباں کو پھاڑ کر

فرخ جعفری

;

اب کے جنوں ہوا تو گریباں کو پھاڑ کر
دنیا کو چھوڑ جاؤں گا دامن کو جھاڑ کر

یہ آئنہ فریب نظر ہے بہت نہ دیکھ
اک روز تجھ کو پیش کرے گا بگاڑ کر

مہماں سرائے جاں میں کوئی ٹھیرتا نہیں
جب سے چلا گیا اسے کوئی اجاڑ کر

فرخؔ ہوا ہے تیز قدم کو جما کے رکھ
ورنہ یہ پھینک دے گی تجھے بھی اکھاڑ کر