اب کے بکھرا تو میں یکجا نہیں ہو پاؤں گا
تیرے ہاتھوں سے بھی ویسا نہیں ہو پاؤں گا
مجھ کو بیمار کرے گی تری عادت اک دن
اور پھر تجھ سے بھی اچھا نہیں ہو پاؤں گا
یہ تو ممکن ہے کہ ہو جاؤں ترا خیر اندیش
ہاں مگر اس سے زیادہ نہیں ہو پاؤں گا
اب مری ذات میں بس ایک کی گنجائش ہے
میں ہوا دھوپ تو سایہ نہیں ہو پاؤں گا
یوں تو مشکل ہی بہت ہے مرا ہاتھ آنا اور
ہاتھ آیا تو گوارہ نہیں ہو پاؤں گا
تو بڑی دیر سے آیا مجھے زندہ کرنے
اب نمی پا کے بھی سبزہ نہیں ہو پاؤں گا
مجھ میں اتنی نہیں تاثیر مسیحائی کی
زخم بھر سکتا ہوں عیسیٰ نہیں ہو پاؤں گا
ان دنوں عقل کی چلتی ہے حکومت دل پہ
میں جو چاہوں بھی تمہارا نہیں ہو پاؤں گا
اتنا آباد ہے تجھ سے مرے اندر کا شہر
تجھ سے بچھڑا بھی تو صحرا نہیں ہو پاؤں گا
غزل
اب کے بکھرا تو میں یکجا نہیں ہو پاؤں گا
راہل جھا