EN हिंदी
اب کے برسات تو گھر کر کے ہی مسمار گئی | شیح شیری
ab ke barsat to ghar kar ke hi mismar gai

غزل

اب کے برسات تو گھر کر کے ہی مسمار گئی

محشر بدایونی

;

اب کے برسات تو گھر کر کے ہی مسمار گئی
در کو روکا تھا تھپیڑوں میں کہ دیوار گئی

کیا سفر کس کا مکاں کیسی ہوا کس کا شجر
تیزیٔ پر گئی خس ریزیٔ منقار گئی

ہو گئے گوشہ نشیں گھر میں جو ہم خاک بسر
کون سی آبروئے کوچہ و بازار گئی

دائرے سارے دل و ذہن کے زنجیر بنے
چھن گئی روح عمل گردش پرکار گئی

کچھ زیادہ ہی پریشاں ہیں پلٹتی موجیں
درد میں ڈوبی ہوئی لے کوئی اس پار گئی