اب کے برسات تو گھر کر کے ہی مسمار گئی
در کو روکا تھا تھپیڑوں میں کہ دیوار گئی
کیا سفر کس کا مکاں کیسی ہوا کس کا شجر
تیزیٔ پر گئی خس ریزیٔ منقار گئی
ہو گئے گوشہ نشیں گھر میں جو ہم خاک بسر
کون سی آبروئے کوچہ و بازار گئی
دائرے سارے دل و ذہن کے زنجیر بنے
چھن گئی روح عمل گردش پرکار گئی
کچھ زیادہ ہی پریشاں ہیں پلٹتی موجیں
درد میں ڈوبی ہوئی لے کوئی اس پار گئی
غزل
اب کے برسات تو گھر کر کے ہی مسمار گئی
محشر بدایونی