اب کے برس ہوں جتنا تنہا
پہلے کہاں تھا اتنا تنہا
دنیا ایک سمندر جس میں
میں ہوں کوئی جزیرہ تنہا
زیست سفر ہے تنہائی کا
آنا تنہا جانا تنہا
اس کو بتاؤ جسم سے کٹ کر
رہ نہیں سکتا سایہ تنہا
اف یہ موج طوفان الم
ہائے دل کا سفینہ تنہا
جس کو چاہا جان سے بڑھ کر
آخر اس نے چھوڑا تنہا
گھر سے باہر نکلو کسی دن
اتنا بھی کیا رہنا تنہا
اب وہ کہیں اور میں ہوں کہیں
عمر کٹے گی تنہا تنہا
کاشرؔ کی ہے اپنی ہی دنیا
ہوگا کہیں پر بیٹھا تنہا
غزل
اب کے برس ہوں جتنا تنہا
شوزیب کاشر