اب کے برس بھی مہکا مہکا خواب دریچا لگتا ہے
دنیا چاند نظر آتی ہے سب کچھ اچھا لگتا ہے
کیا جائیں یہ کیسی دعائیں ان آنکھوں نے مانگی تھیں
مجھ کو اپنے کاندھوں پر بھی اس کا چہرہ لگتا ہے
اس کو بچھڑے مدت گزری سارا جیون بیت گیا
وہ آئے گا کچھ پوچھے گا اب بھی ایسا لگتا ہے
اب بھی سونے من آنگن میں یاد کے پنچھی اڑتے ہیں
اب بھی شامیں سجتی ہیں یاں اب بھی میلا لگتا ہے
جب ممتا کی آنکھوں سے میں دنیا دیکھا کرتی ہوں
اپنا بوڑھا باپ بھی مجھ کو ننھا بچہ لگتا ہے
اپنی ہر تخلیق ہے مجھ کو اس دنیا میں سب سے عزیز
ہر اک ماں کو اپنا بیٹا چاند کا ٹکڑا لگتا ہے
بشریٰؔ آؤ لوٹ چلیں اور خواب نگر میں کھو جائیں
دنیا میں تو سب کچھ اپنا دیکھا بھالا لگتا ہے
غزل
اب کے برس بھی مہکا مہکا خواب دریچا لگتا ہے
بشری زیدی