اب کے بازار میں یہ طرفہ تماشا دیکھا
بیچنے نکلے تو یوسف کا خریدار نہ تھا
دوستو رسم محبت پہ یہ کیا بیت گئی
شہر یاراں میں کوئی شخص سر دار نہ تھا
اور بھی لوگ تھے توفیق وفا رکھتے تھے
ایک میں ہی تو ترے غم کا سزاوار نہ تھا
دل کے کہنے پہ لگا لی ہے وفا کی تہمت
ورنہ جینا تو مجھے باعث آزار نہ تھا
مصلحت کیش بنے بیٹھے ہیں سب اہل وفا
اتنا رسوا تو کبھی عشق کا پندار نہ تھا
تجھ کو چاہا تو کسی اور کو چاہا نہ گیا
میں تو فن کار تھا غالبؔ کا طرفدار نہ تھا

غزل
اب کے بازار میں یہ طرفہ تماشا دیکھا
غلام جیلانی اصغر