EN हिंदी
اب کے بارش کو بھی تو آنے دے | شیح شیری
ab ke barish ko bhi to aane de

غزل

اب کے بارش کو بھی تو آنے دے

صاحبہ شہریار

;

اب کے بارش کو بھی تو آنے دے
کچھ ستم موسموں کو ڈھانے دے

میرے گزرے ہوئے زمانے دے
پھر مجھے زخم کچھ پرانے دے

ہر کوئی مجھ کو آزماتا ہے
اب مجھے اس کو آزمانے دے

رات تو گہری نیند سوتی ہے
ساز غم صبح کو سنانے دے

دل کو اس سے سکون ملتا ہے
درد کی محفلیں سجانے دے