EN हिंदी
اب کہیں سایۂ گیسو بھی نہیں | شیح شیری
ab kahin saya-e-gesu bhi nahin

غزل

اب کہیں سایۂ گیسو بھی نہیں

رفعت سلطان

;

اب کہیں سایۂ گیسو بھی نہیں
چین دل کو کسی پہلو بھی نہیں

جانے کیا سوچ کے خوش بیٹھا ہوں
موسم گل بھی نہیں تو بھی نہیں

اب تری نذر کروں کیا اے دوست
اب مری آنکھوں میں آنسو بھی نہیں

کس کو سینے سے لگا کر روئیں
دشت میں اب کوئی آہو بھی نہیں

مسکرا اٹھتی تھی وہ آنکھ کبھی
اور اب جنبش ابرو بھی نہیں

دل کو حسرت ہے ترے ملنے کی
اور حالات پہ قابو بھی نہیں