اب کہیں سایۂ گیسو بھی نہیں
چین دل کو کسی پہلو بھی نہیں
جانے کیا سوچ کے خوش بیٹھا ہوں
موسم گل بھی نہیں تو بھی نہیں
اب تری نذر کروں کیا اے دوست
اب مری آنکھوں میں آنسو بھی نہیں
کس کو سینے سے لگا کر روئیں
دشت میں اب کوئی آہو بھی نہیں
مسکرا اٹھتی تھی وہ آنکھ کبھی
اور اب جنبش ابرو بھی نہیں
دل کو حسرت ہے ترے ملنے کی
اور حالات پہ قابو بھی نہیں

غزل
اب کہیں سایۂ گیسو بھی نہیں
رفعت سلطان