EN हिंदी
اب کہیں اور کہاں خاک بسر ہوں ترے بندے جا کر | شیح شیری
ab kahin aur kahan KHak-basar hon tere bande ja kar

غزل

اب کہیں اور کہاں خاک بسر ہوں ترے بندے جا کر

صابر ظفر

;

اب کہیں اور کہاں خاک بسر ہوں ترے بندے جا کر
زندگی اور بھی مغموم لگے شہر سے آگے جا کر

عدم آباد کے لوگوں کا مزاج ان دنوں کیسا ہوگا
لوٹ آنے کی توقع ہو کسی کو تو وہ پوچھے جا کر

میں گھنا پیڑ ہوں آیا بھی کبھی جو مرے سائے کو زوال
ان خزاؤں سے بہت دور گریں گے مرے پتے جا کر

کٹ بھی سکتے ہیں شب و روز مرے ان ہی گلی کوچوں میں
لوٹنا ہے تری جانب ہی اگر تیرے نگر سے جا کر

شاعری پھول کھلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے تو ظفرؔ
باغ ہی کوئی لگاتا کہ جہاں کھیلتے بچے جا کر