اب کہیں اور کہاں خاک بسر ہوں ترے بندے جا کر
زندگی اور بھی مغموم لگے شہر سے آگے جا کر
عدم آباد کے لوگوں کا مزاج ان دنوں کیسا ہوگا
لوٹ آنے کی توقع ہو کسی کو تو وہ پوچھے جا کر
میں گھنا پیڑ ہوں آیا بھی کبھی جو مرے سائے کو زوال
ان خزاؤں سے بہت دور گریں گے مرے پتے جا کر
کٹ بھی سکتے ہیں شب و روز مرے ان ہی گلی کوچوں میں
لوٹنا ہے تری جانب ہی اگر تیرے نگر سے جا کر
شاعری پھول کھلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے تو ظفرؔ
باغ ہی کوئی لگاتا کہ جہاں کھیلتے بچے جا کر
غزل
اب کہیں اور کہاں خاک بسر ہوں ترے بندے جا کر
صابر ظفر