EN हिंदी
اب کہاں درد جسم و جان میں ہے | شیح شیری
ab kahan dard jism-o-jaan mein hai

غزل

اب کہاں درد جسم و جان میں ہے

وجے شرما عرش

;

اب کہاں درد جسم و جان میں ہے
دفن ہے دل بدن دکان میں ہے

دن ڈھلے روز یوں لگے جیسے
کوئی مجھ سا مرے مکان میں ہے

دل کا کچھ بھی پتا نہیں چلتا
ہاتھ میں ہے کہ آسمان میں ہے

چھاؤں کے پل جلا دیے سارے
اف وہ سورج جو سائبان میں ہے

کیوں نہ تشبیہ پھول ہو اس کی
وہ جو خوشبو سا داستان میں ہے

اک سوال اور عرشؔ باقی ہے
آخری تیر بھی کمان میں ہے