اب کہاں درد جسم و جان میں ہے
دفن ہے دل بدن دکان میں ہے
دن ڈھلے روز یوں لگے جیسے
کوئی مجھ سا مرے مکان میں ہے
دل کا کچھ بھی پتا نہیں چلتا
ہاتھ میں ہے کہ آسمان میں ہے
چھاؤں کے پل جلا دیے سارے
اف وہ سورج جو سائبان میں ہے
کیوں نہ تشبیہ پھول ہو اس کی
وہ جو خوشبو سا داستان میں ہے
اک سوال اور عرشؔ باقی ہے
آخری تیر بھی کمان میں ہے
غزل
اب کہاں درد جسم و جان میں ہے
وجے شرما عرش