اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں
دل ٹھہرے تو درد سنائیں درد تھمے تو بات کریں
شام ہوئی پھر جوش قدح نے بزم حریفاں روشن کی
گھر کو آگ لگائیں ہم بھی روشن اپنی رات کریں
قتل دل و جاں اپنے سر ہے اپنا لہو اپنی گردن پہ
مہر بہ لب بیٹھے ہیں کس کا شکوہ کس کے ساتھ کریں
ہجر میں شب بھر درد و طلب کے چاند ستارے ساتھ رہے
صبح کی ویرانی میں یارو کیسے بسر اوقات کریں
غزل
اب جو کوئی پوچھے بھی تو اس سے کیا شرح حالات کریں
فیض احمد فیض