EN हिंदी
اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور | شیح شیری
ab ishq tamasha mujhe dikhlae hai kuchh aur

غزل

اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور

جرأت قلندر بخش

;

اب عشق تماشا مجھے دکھلائے ہے کچھ اور
کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور

ناصح کی حماقت تو ذرا دیکھیو یارو
سمجھا ہوں میں کچھ اور مجھے سمجھائے ہے کچھ اور

کیا دیدۂ خوں بار سے نسبت ہے کہ یہ ابر
برسائے ہے کچھ اور وہ برسائے کچھ اور

رونے دے، ہنسا مجھ کو نہ ہمدم کہ تجھے اب
کچھ اور ہی بھاتا ہے مجھے بھائے ہے کچھ اور

پیغام بر آیا ہے یہ اوسان گنوائے
پوچھوں ہوں میں کچھ اور مجھے بتلائے ہے کچھ اور

جرأتؔ کی طرح میرے حواس اب نہیں بر جا
کہتا ہوں کچھ اور منہ سے نکل جائے ہے کچھ اور