EN हिंदी
اب اس سے پہلے کہ دنیا سے میں گزر جاؤں | شیح شیری
ab is se pahle ki duniya se main guzar jaun

غزل

اب اس سے پہلے کہ دنیا سے میں گزر جاؤں

اشوک ساحل

;

اب اس سے پہلے کہ دنیا سے میں گزر جاؤں
میں چاہتا ہوں کوئی نیک کام کر جاؤں

خدا کرے مرے کردار کو نظر نہ لگے
کسی سزا سے نہیں میں خطا سے ڈر جاؤں

ضرورتیں میری غیرت پہ طنز کرتی ہیں
مرے ضمیر تجھے مار دوں کہ مر جاؤں

بہت غرور ہے بچوں کو میری ہمت پر
میں سر جھکائے ہوئے کیسے آج گھر جاؤں

مرے عزیز جہاں مجھ سے مل نہ سکتے ہوں
تو کیوں نہ ایسی بلندی سے خود اتر جاؤں