اب انتہا کا ترے ذکر میں اثر آیا
کہ منہ سے نام لیا دل میں تو اتر آیا
بہت دنوں پہ مری چشم میں نظر آیا
اے اشک خیر تو ہے، تو کدھر کدھر آیا
ہزار شکر کہ اس دل میں تو نظر آیا
یہ نقشہ صفحۂ خالی پہ جلد اتر آیا
بشر حباب کی صورت ہمیں نظر آیا
بھری جو قطرہ کے اندر ہوا ابھر آیا
زباں پہ آتا ہے نالہ بھی سو کرشموں سے
کہاں سے آپ کے انداز کا اثر آیا
عدم میں عیش ہے چلتا ہوں میں بھی لے اے دل
جہاں میں جتنے مصیبت کے دن تھے بھر آیا
لکھے کو روئیے اب تابہ حشر تربت میں
کہ میرے مرنے پہ خط لے کے نامہ بر آیا
پڑا ہے شب سے یوں ہی اب تلک نہ لی کروٹ
دل ستم زدہ اس کی گلی سے مر آیا
ہزار شکر خدا کا یہی غنیمت ہے
نہ خیر آیا مرے دل کو اور شر آیا
ریا تو دل میں تھی ماتھے پہ اب ہے اس کا نشاں
کہاں کا داغ کہاں دفعتاً ابھر آیا
مقیم دل ہے ڈنواں ڈول رہ کے اب ایماں
بتوں کے قہر سے چھوٹا خدا کے گھر آیا
ہمارے پائے طلب نے بڑی مہم سر کی
کہ کٹ کے سامنے قاتل کے اپنا سر آیا
شراب پی کے میں پہنچا فلک پہ اے ساقی
کہاں سے ان کئی قطروں میں یہ اثر آیا
وہ چاہے بد کہے قاصد بتوں کو یا مجھ کو
حرم میں چین سے ایمان جا کے دھر آیا
لحد میں شانہ ہلا کر یہ موت کہتی ہے
لے اب تو چونک مسافر کہ اپنے گھر آیا
ہزار شکر ہوا آفتاب حشر طلوع
بڑی تو لاج رہی یہ کہ تو نظر آیا
گواہیاں ہوئیں اعضا کی حشر میں مقبول
وہ پاک ہو گئے الزام میرے سر آیا
ہجوم غم نے سکھانے کی لاکھ کوشش کی
ہمیں تو آہ بھی کرنا نہ عمر بھر آیا
جو چند دن میں ہوئے ذی کمال کون ہیں شادؔ
ہمیں تو شعر کا کہنا نہ عمر بھر آیا
اسی کو شعر سمجھتے ہیں شادؔ اہل مذاق
ادھر پڑھا کہ دلوں میں ادھر اتر آیا
غزل
اب انتہا کا ترے ذکر میں اثر آیا
شاد عظیم آبادی