EN हिंदी
اب ہستئ خراب کا عالم سنور گیا | شیح شیری
ab hasti-e-KHarab ka aalam sanwar gaya

غزل

اب ہستئ خراب کا عالم سنور گیا

نظر برنی

;

اب ہستئ خراب کا عالم سنور گیا
اک نشۂ شباب تھا سر سے اتر گیا

گزرا ہوں راہ عشق میں منزل سے بے نیاز
آواز ان کی پائی جہاں بھی ٹھہر گیا

مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں مجھے رہ گزر پہ لوگ
میں دیکھتا ہوں زعم محبت کدھر گیا

قدموں کو اس کے چھوتا ہے خود مقصد حیات
جو منزل نشاط کی حد سے گزر گیا

انجام عشق دیکھ رہا ہوں نظرؔ سے آج
میں بے خودی میں اپنے ہی سائے سے ڈر گیا