اب ہستئ خراب کا عالم سنور گیا
اک نشۂ شباب تھا سر سے اتر گیا
گزرا ہوں راہ عشق میں منزل سے بے نیاز
آواز ان کی پائی جہاں بھی ٹھہر گیا
مڑ مڑ کے دیکھتے ہیں مجھے رہ گزر پہ لوگ
میں دیکھتا ہوں زعم محبت کدھر گیا
قدموں کو اس کے چھوتا ہے خود مقصد حیات
جو منزل نشاط کی حد سے گزر گیا
انجام عشق دیکھ رہا ہوں نظرؔ سے آج
میں بے خودی میں اپنے ہی سائے سے ڈر گیا
غزل
اب ہستئ خراب کا عالم سنور گیا
نظر برنی