EN हिंदी
اب ہم چراغ بن کے سر راہ جل اٹھے | شیح شیری
ab hum charagh ban ke sar-e-rah jal uThe

غزل

اب ہم چراغ بن کے سر راہ جل اٹھے

وشو ناتھ درد

;

اب ہم چراغ بن کے سر راہ جل اٹھے
دیکھیں تو کس طرح سے بھٹکتے ہیں قافلے

جو منتظر تھے بات کے منہ دیکھتے رہے
خاموش رہ کے ہم تو بڑی بات کہہ گئے

کب منزلوں نے چومے قدم ان کے ہمدمو
ہر راہ روکے ساتھ جو رہ گیر چل پڑے

جانے زباں کی بات تھی یا رنگ روپ کی
ہم آپ اپنے شہر میں جو اجنبی رہے

وہ لوگ خوش نصیب تھے اپنی نگاہ میں
جو ہر کسی کے شوق کی خود داستاں بنے

معلوم جن کا نام و نشاں بھی نہیں ہمیں
ہم ان کا شہر شہر پتہ پوچھتے پھرے

کہنے کو اک جہاں سے الجھتے رہے مگر
اے درد اپنے سائے سے ڈر ڈر کے ہم جئے