اب ہے کیا لاکھ بدل چشم گریزاں کی طرح
میں ہوں زندہ ترے ٹوٹے ہوئے پیماں کی طرح
کوئی دستک کوئی آہٹ نہ شناسا آواز
خاک اڑتی ہے در دل پہ بیاباں کی طرح
تو مری ذات مری روح مرا حسن کلام
دیکھ اب تو نہ بدل گردش دوراں کی طرح
میں نے جب غور سے دیکھا تو وہ پتھر نکلا
ورنہ وہ حسن نظر آتا تھا انساں کی طرح
اب میں کس ناز پہ کہہ دوں کہ اسے کر لے قبول
دل تو صد چاک ہے مفلس کے گریباں کی طرح
ابھی کچھ کار محبت ہے مجھے دنیا میں
زندگی ختم نہ ہو صحبت یاراں کی طرح
میں تری بزم سے نکلا تھا نظر کی کی صورت
اب نہ یوں دیکھ مجھے دیدۂ حیراں کی طرح
برق بن کر مرے خرمن کو جلانے والے
تو ہی برسا تھا کبھی ابر بہاراں کی طرح
غزل
اب ہے کیا لاکھ بدل چشم گریزاں کی طرح
ظہیر کاشمیری