اب فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے
یا پھر ہمیں منزل کی بشارت دی جائے
دیوانے ہیں ہم جھوٹ بہت بولتے ہیں
ہم کو سر بازار یہ عزت دی جائے
پھر گرد مہ و سال میں اٹ جائیں گے
آئینہ بنایا ہے تو صورت دی جائے
اصرار ہی کرتے ہو تو اپنا سمجھو
دینا ہی اگر ہے تو محبت دی جائے
وہ جس نے مجھے قتل پہ اکسایا تھا
اس شخص سے ملنے کی بھی مہلت دی جائے
جب میری گواہی بھی مرے حق میں نہیں
پھر شہر میں کس کس کی شہادت دی جائے
ہم جاگتے رہنے کے بہت عادی ہیں
ہم کو شب ہجراں کی مسافت دی جائے
چھڑ جائے تو طبقات کی اب جنگ سلیمؔ
کچھ بھی ہو مگر ہم کو نہ زحمت دی جائے
غزل
اب فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے
سلیم کوثر