اب دور تلک یاد کا صحرا ہے نظر میں
کچھ روز تو رہنا ہے اسی راہ گزر میں
ہم پیاس کے جنگل کی کمیں گہ سے نہ نکلے
دریائے عنایت کا کنارہ تھا نگر میں
کس کے لیے ہاتھوں کی لکیروں کو ابھاریں
اپنا تو ہر اک پل ہے ستاروں کے اثر میں
اب خواب بھی دیکھے نہیں جاتے کہ یہ آنکھیں
بس جاگتی رہتی ہیں ترے سایۂ در میں
کس کے لیے پیروں کو اذیت میں رکھا جائے
خود ڈھونڈ کے تنہائی چلی آئی ہے گھر میں
پھر ظل الٰہی کے سواروں کی صدا آئی
پھر کون ہوا مورد الزام نگر میں
قیصرؔ بھی صلیب اپنی اٹھائے ہوئے گزرا
کہتے ہیں کہ خوددار تھا جینے کے ہنر میں
غزل
اب دور تلک یاد کا صحرا ہے نظر میں
قیصر عباس