اب دل کو ہم نے بندۂ جاناں بنا دیا
اک کافر ازل کو مسلماں بنا دیا
دشواریوں کو عشق نے آساں بنا دیا
غم کو سرور درد کو درماں بنا دیا
اس جاں فزا عتاب کے قربان جائیے
ابرو کی ہر شکن کو رگ جاں بنا دیا
برق جمال یار یہ جلوہ ہے یا حجاب
چشم ادا شناس کو حیراں بنا دیا
اے ذوق جستجو تری ہمت پہ آفریں
منزل کو ہر قدم پہ گریزاں بنا دیا
اٹھی تھی بحر حسن سے اک موج بے قرار
فطرت نے اس کو پیکر انساں بنا دیا
اے سوز ناتمام کہاں جائے اب خلیلؑ
آتش کدے کو بھی تو گلستاں بنا دیا
وارفتگان شوق کو کیا دیر کیا حرم
جس در پہ دی صدا در جاناں بنا دیا
آنسو کی کیا بساط مگر جوش عشق نے
قطرے کو موج موج کو طوفاں بنا دیا
کیا ایک میں ہی میں ہوں اس آئینہ خانہ میں
مجھ کو تو کشف راز نے حیراں بنا دیا
غزل
اب دل کو ہم نے بندۂ جاناں بنا دیا
اقبال سہیل