EN हिंदी
اب دل بھی دکھاؤ تو اذیت نہیں ہوتی | شیح شیری
ab dil bhi dukhao to aziyyat nahin hoti

غزل

اب دل بھی دکھاؤ تو اذیت نہیں ہوتی

اکرم محمود

;

اب دل بھی دکھاؤ تو اذیت نہیں ہوتی
حیرت ہے کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی

اب درد بھی اک حد سے گزرنے نہیں پاتا
اب ہجر میں وہ پہلی سی وحشت نہیں ہوتی

ہوتا ہے تو بس ایک ترے ہجر کا شکوہ
ورنہ تو ہمیں کوئی شکایت نہیں ہوتی

کر دیتا ہے بے ساختہ بانہوں کو کشادہ
جب بچ کے نکل جانے کی صورت نہیں ہوتی

دل خوش جو نہیں رہتا تو اس کا بھی سبب ہے
موجود کوئی وجہ مسرت نہیں ہوتی

یوں بر سر پیکار ہوں میں خود سے مسلسل
اب اس سے الجھنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی

اب یوں بھی نہیں ہے کہ وہ اچھا نہیں لگتا
یوں ہے کہ ملاقات کی صورت نہیں ہوتی

یہ ہجر مسلسل کا وظیفہ ہے مری جاں
اک ترک سکونت ہی تو ہجرت نہیں ہوتی

دو چار برس جتنے بھی ہیں جبر ہی سہہ لیں
اس عمر میں اب ہم سے بغاوت نہیں ہوتی