اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے
ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے
حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے
جینا جو آ گیا تو اجل بھی حیات ہے
اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بے ثبات ہے
کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا
وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے
یہ موشگافیاں ہیں گراں طبع عشق پر
کس کو دماغ کاوش ذات و صفات ہے
توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندان عقل تیری تو کیا کائنات ہے
گردوں شرار برق دل بے قرار دیکھ
جن سے یہ تیری تاروں بھری رات رات ہے
گم ہو کے ہر جگہ ہیں زخود رفتگان عشق
ان کی بھی اہل کشف و کرامات ذات ہے
ہستی بجز فنائے مسلسل کے کچھ نہیں
پھر کس لیے یہ فکر قرار و ثبات ہے
اس جان دوستی کا خلوص نہاں نہ پوچھ
جس کا ستم بھی غیرت صد التفات ہے
یوں تو ہزار درد سے روتے ہیں بد نصیب
تم دل دکھاؤ وقت مصیبت تو بات ہے
عنوان غفلتوں کے ہیں قربت ہو یا وصال
بس فرصت حیات فراقؔ ایک رات ہے
غزل
اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
فراق گورکھپوری