اب درد محبت کو اے دل منت کش درماں کون کرے
خود اپنے ہی ہاتھوں الفت کا برباد گلستاں کون کرے
جب یاد کسی کی آتی ہے اک برق سی لہرا جاتی ہے
جب ہم ہی درد کے خواہاں ہوں پھر درد کا درماں کون کرے
اس شان تغافل پر آخر جی چھوٹ گیا دل ٹوٹ گیا
جب دل ہی ہمارا ٹوٹ چکا پھر آپ کو مہماں کون کرے
جب برق تپاں لہرا لہرا انگڑائی فلک پر لیتی ہو
اس وقت نشیمن کیسے بنے تزئین گلستاں کون کرے
اب ترک ستم کے کیا معنی ہر روز نیا گل کھلنے دو
دو چار درخشاں داغوں سے دل رشک گلستاں کون کرے
مقصود ہے قدر و قیمت بھی زیبائش حسن خوباں کی
ہر خون کے آنسو کو لیکن اب لعل بدخشاں کون کرے
اب یاس کا عالم طاری ہے یہ رات بھی ہم پر بھاری ہے
اے جوہرؔ اس کے وعدوں پر اب زیست کا ساماں کون کرے

غزل
اب درد محبت کو اے دل منت کش درماں کون کرے
جوہر زاہری