EN हिंदी
اب درد بے دیار ہے اور جگ ہنسائی ہے | شیح شیری
ab dard be-dayar hai aur jag-hansai hai

غزل

اب درد بے دیار ہے اور جگ ہنسائی ہے

ظہیر فتح پوری

;

اب درد بے دیار ہے اور جگ ہنسائی ہے
اس عشق نے بھی کیسی جواں موت پائی ہے

بادل ہیں دل کے دل کوئی روزن کہیں نہیں
اب چھاؤنی غموں نے فلک پر بھی چھائی ہے

رخصت کے بعد تیرے سراپے سے ماورا
یہ کون سی ادا ہے جو اب یاد آئی ہے

آئی جو سر پہ دھوپ لگے خیمۂ خیال
تم ہو جبھی تو وقت کو یوں نیند آئی ہے

چپ ہو گیا ہے دل سا فسانہ نگار بھی
تنہائی اک رہی تھی سو وہ بھی پرائی ہے

کیا اب کبھی جنوں کا بلاوا نہ آئے گا
صحرا کی خاک اڑ کے خیاباں میں آئی ہے

جو گزرے غم کو خود میں سموئے رہیں گے ہم
ہم نے ظہیرؔ جینے کی سوگند کھائی ہے