EN हिंदी
اب دم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر | شیح شیری
ab dam-ba-KHud hain nabz ki raftar dekh kar

غزل

اب دم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر

بسملؔ  عظیم آبادی

;

اب دم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر
تم ہنس رہے ہو حالت بیمار دیکھ کر

سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر
گھبرا گیا جو گرمئ بازار دیکھ کر

اللہ تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق
دم گھٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

دیتا کہاں ہے وقت پڑے پر کوئی بھی ساتھ
ہم کو مصیبتوں میں گرفتار دیکھ کر

آتے ہیں میکدے کی طرف سے جناب شیخ
سرگوشیاں ہیں لغزش رفتار دیکھ کر

غیروں نے غیر جان کے ہم کو اٹھا دیا
بیٹھے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر

آتے ہیں بزم یاراں میں پہچان ہی گیا
مے خوار کی نگاہ کو مے خوار دیکھ کر

اس مدھ بھری نگاہ کی اللہ رے کشش
سو بار دیکھنا پڑا اک بار دیکھ کر

تم رہنمائے وقت سہی پھر بھی چند گام
چلنا پڑے گا وقت کی رفتار دیکھ کر

وقت سحر گزر گئی کیا کیا نہ پوچھیے
گردن میں ان کی سوکھے ہوئے ہار دیکھ کر

تلچھٹ ملا کے دیتا ہے رندوں کو ساقیا
ساغر پٹک نہ دے کوئی ہشیار دیکھ کر

بسملؔ کو کیا ہے چادر رحمت رسول کی
سائے میں لے ہی لے گی گنہ گار دیکھ کر