اب چراغوں میں زندگی کم ہے
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
تاب نظارہ ہے وہی لیکن
ان کے جلووں میں دل کشی کم ہے
بدلا بدلا مزاج ہے اس کا
اس کی باتوں میں چاشنی کم ہے
کیف و مستی سرور کیا معنی
زندگی میں بھی اب خوشی کم ہے
وقت نے بھر دیئے ہیں زخم مجیدؔ
اپنی آنکھوں میں اب نمی کم ہے
غزل
اب چراغوں میں زندگی کم ہے
عبدالمجید خاں مجید