اب بھی میں یار ہوں ذرا ہوش و حواس میں
تھوڑی شراب اور دے میرے گلاس میں
اسکول کا وہ وقت مجھے اب بھی یاد ہے
پڑھتا تھا اس کا چہرہ میں اپنے کلاس میں
ہر کوئی اس کے واسطے مرنے کو پھرتا تھا
ہر کوئی جی رہا تھا بس اوس کی ہی آس میں
سب لڑکے اس کو دیکھ کے بیتاب ہوتے تھے
ہوتی تھی اس طرح سے وہ داخل کلاس میں

غزل
اب بھی میں یار ہوں ذرا ہوش و حواس میں
نور این ساحر