اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
پلکوں پہ آ کے رک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا
تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی
میں خود کو ڈھونڈنے کے لیے در بہ در گیا
شام وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا
آخر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئی
الزام احتیاط گریباں کے سر گیا
زنجیر ماتمی ہے تم اے عاقلان شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دوانہ تو مر گیا
غزل
اب بھی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
مصطفی زیدی