EN हिंदी
اب بند جو اس ابر گہربار کو لگ جائے | شیح شیری
ab band jo is abr-e-guhar-bar ko lag jae

غزل

اب بند جو اس ابر گہربار کو لگ جائے

شکیل جمالی

;

اب بند جو اس ابر گہربار کو لگ جائے
کچھ دھوپ ہمارے در و دیوار کو لگ جائے

پلکوں پہ سجائے رہو امید کے جگنو
کیا جانیے کس کی دعا بیمار کو لگ جائے

سولی پہ بھی اس بات کی کوشش ہے ہماری
ایثار ہمارا ترے معیار کو لگ جائے

حق گوئی سے میری ہی پریشان ہے دنیا
کیا ہو یہ وبا اور جو دو چار کو لگ جائے

تھوڑی سی رہے جیب خریدار کشادہ
تھوڑا سا گہن رونق بازار کو لگ جائے