اب بند جو اس ابر گہربار کو لگ جائے
کچھ دھوپ ہمارے در و دیوار کو لگ جائے
پلکوں پہ سجائے رہو امید کے جگنو
کیا جانیے کس کی دعا بیمار کو لگ جائے
سولی پہ بھی اس بات کی کوشش ہے ہماری
ایثار ہمارا ترے معیار کو لگ جائے
حق گوئی سے میری ہی پریشان ہے دنیا
کیا ہو یہ وبا اور جو دو چار کو لگ جائے
تھوڑی سی رہے جیب خریدار کشادہ
تھوڑا سا گہن رونق بازار کو لگ جائے
غزل
اب بند جو اس ابر گہربار کو لگ جائے
شکیل جمالی