اب اور سانحے ہم پر نہیں گزرنے کے
گزر گئے ہیں جو لمحے تھے خود سے ڈرنے کے
نہ بھاگنے کے رہے ہم نہ اب ٹھہرنے کے
وہ لمحے آئے جو آ کر نہیں گزرنے کے
بڑے بڑوں نے یہاں آ کے دم نہیں مارا
وہ آئے مرحلے اپنی صدا سے ڈرنے کے
یہ ایک عرصے کے چپ کی خراش اور سہی
صدا کے زخم تو چپ سے نہیں تھے بھرنے کے
نئے سرے سے تعلق بنیں گے بگڑیں گے
کہ اب ارادے ہیں ایک ایک بات کرنے کے
غزل
اب اور سانحے ہم پر نہیں گزرنے کے
منموہن تلخ