EN हिंदी
اب اور سانحے ہم پر نہیں گزرنے کے | شیح شیری
ab aur sanehe hum par nahin guzarne ke

غزل

اب اور سانحے ہم پر نہیں گزرنے کے

منموہن تلخ

;

اب اور سانحے ہم پر نہیں گزرنے کے
گزر گئے ہیں جو لمحے تھے خود سے ڈرنے کے

نہ بھاگنے کے رہے ہم نہ اب ٹھہرنے کے
وہ لمحے آئے جو آ کر نہیں گزرنے کے

بڑے بڑوں نے یہاں آ کے دم نہیں مارا
وہ آئے مرحلے اپنی صدا سے ڈرنے کے

یہ ایک عرصے کے چپ کی خراش اور سہی
صدا کے زخم تو چپ سے نہیں تھے بھرنے کے

نئے سرے سے تعلق بنیں گے بگڑیں گے
کہ اب ارادے ہیں ایک ایک بات کرنے کے