EN हिंदी
اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے | شیح شیری
ab ashk to kahan hai jo chahun Tapak paDe

غزل

اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے

ظہور اللہ بدایونی نوا

;

اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے
آنکھوں سے وقت گریہ مگر خوں ٹپک پڑے

پہنچی جو ٹک جھلک ترے رانوں کی گوش تک
خجلت سے آب ہو در مکنوں ٹپک پڑے

طغیاں سرشک کا تو یہاں تک ہے چشم سے
اک قطرہ آب کا ہو تو جیجوں ٹپک پڑے

ڈوبا ہے بحر شعر میں ایسا نواؔ کہ اب
دے طبع کو فشار تو مضموں ٹپک پڑے