اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے
آنکھوں سے وقت گریہ مگر خوں ٹپک پڑے
پہنچی جو ٹک جھلک ترے رانوں کی گوش تک
خجلت سے آب ہو در مکنوں ٹپک پڑے
طغیاں سرشک کا تو یہاں تک ہے چشم سے
اک قطرہ آب کا ہو تو جیجوں ٹپک پڑے
ڈوبا ہے بحر شعر میں ایسا نواؔ کہ اب
دے طبع کو فشار تو مضموں ٹپک پڑے
غزل
اب اشک تو کہاں ہے جو چاہوں ٹپک پڑے
ظہور اللہ بدایونی نوا