اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے
خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے
گنوا چکا ہوں میں چالیس سال جس کے لیے
وہ ایک پل مری پہچان ہونے والا ہے
اسی لیے تو جلاتا ہوں آندھیوں میں چراغ
یقین ہے کہ نگہبان ہونے والا ہے
اب اپنے زخم نظر آ رہے ہیں پھول مجھے
شعور درد پشیمان ہونے والا ہے
مرے لیے تری جانب سے پیار کا اظہار
مرے غرور کا سامان ہونے والا ہے
یہ چوٹ ہے مری مشکل پسند فطرت پر
جو مرحلہ تھا اب آسان ہونے والا ہے
اگر غرور ہے سورج کو اپنی حدت پر
تو پھر یہ قطرہ بھی طوفان ہونے والا ہے
بہت عروج پہ خوش فہمیاں ہیں اب اس کی
وہ عن قریب پشیمان ہونے والا ہے
تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے
تو یہ فقیر بھی سلطان ہونے والا ہے
چراغ دار کی لو ماند پڑ رہی ہے ندیمؔ
پھر اپنے نام کا اعلان ہونے والا ہے
غزل
اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے
ندیم فاضلی