EN हिंदी
اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں | شیح شیری
ab aksar chup chup se rahen hain yunhi kabhu lab kholen hain

غزل

اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں

فراق گورکھپوری

;

اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں
پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں

دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات
جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں

فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہو لیں ہیں

خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیل جائیں ہیں جل تھل پر
کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولیں ہیں

باغ میں وہ خواب آور عالم موج صبا کے اشاروں پر
ڈالی ڈالی نورس پتے سہج سہج جب ڈولیں ہیں

اف وہ لبوں پر موج تبسم جیسے کروٹیں لیں کوندے
ہائے وہ عالم جنبش مژگاں جب فتنے پر تولیں ہیں

نقش و نگار غزل میں جو تم یہ شادابی پاؤ ہو
ہم اشکوں میں کائنات کے نوک قلم کو ڈبو لیں ہیں

ان راتوں کو حریم ناز کا اک عالم ہوئے ہے ندیم
خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں

غم کا فسانہ سننے والو آخر شب آرام کرو
کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا اب سو لیں ہیں

ہم لوگ اب تو اجنبی سے ہیں کچھ تو بتاؤ حال فراقؔ
اب تو تمہیں کو پیار کریں ہیں اب تو تمہیں سے بولیں ہیں