اب اہل دل ہیں کہ نایاب ہوتے جاتے ہیں
غبار خاطر احباب ہوتے جاتے ہیں
تمہارے آنے سے کچھ اضطراب کم ہوتا
یہ کیا کہ اور بھی بیتاب ہوتے جاتے ہیں
سکوں مآب سمجھتے تھے جن کناروں کو
سمٹ کے حلقۂ گرداب ہوتے جاتے ہیں
ہمیں بھی رات کو دن کہنا آتا جاتا ہے
کہ ہم بھی حامل آداب ہوتے جاتے ہیں
ہمیں ملے نہ ملے زندگی مگر نکہتؔ
سنا ہے زیست کے اسباب ہوتے جاتے ہیں
غزل
اب اہل دل ہیں کہ نایاب ہوتے جاتے ہیں
نکہت بریلوی