آزردگی کا اس کی ذرا مجھ کو پاس تھا
میں ورنہ آج اس سے زیادہ اداس تھا
سورج نہیں تھا دور سوا نیزے سے مگر
میری انا کا سایہ مرے آس پاس تھا
اب آ کے سو گیا ہے سمندر کی گود میں
دریا میں ورنہ شور ہی اس کی اساس تھا
روحیں اٹھیں گلے ملیں واپس چلی گئیں
اس راز کے چھپانے کو تن پر لباس تھا
پڑھ کر جسے ابھرنے لگیں ان گنت سوال
ایسے ہی اک فسانے کا وہ اقتباس تھا
اب آ کے برف پگھلی ہے کچھ اعتقاد کی
جس کو یقیں سمجھتے رہے ہم قیاس تھا
غزل
آزردگی کا اس کی ذرا مجھ کو پاس تھا
آفتاب شمسی