آزردہ ہو گیا وہ خریدار بے سبب
دل بیچ کر ہوا میں گنہ گار بے سبب
میں نے تو اس سے آنکھ لڑائی نہیں کبھی
ابرو نے مجھ پہ کھینچی ہے تلوار بے سبب
میں نے بلائیں بھی نہیں لیں زلف یار کی
میں ہو گیا بلائے گرفتار بے سبب
بوسہ کبھی لیا نہیں گل سے عذار کا
کیوں دل کے آبلے میں چبھا خار بے سبب
کیوں اٹھ کھڑے ہوئے وہ بھلا میں نے کیا کہا
پہلو میں بیٹھ کر ہوئے بیزار بے سبب
پوچھے تو کوئی کیا مرے تقصیر کیا گناہ
کرتا ہے کیوں ستم وہ ستم گار بے سبب
اک رات بھی ہنسا نہیں اس شمع رو سے میں
آنسو مرے گلے کے ہوئے ہار بے سبب
کس دن دو چار نرگسی آنکھوں سے میں ہوا
اس عشق نے کیا مجھے بیمار بے سبب
جو ان کی بات ہے وہ لڑکپن کے ساتھ ہے
اقرار بے جہت ہے تو انکار بے سبب
پھاہا جگہ کی داغ کا شاید سرک گیا
یہ چشم تر نہیں ہے شرر بار بے سبب
دکھلا کی یہ بہار شگوفہ پھولائیں گے
اوڑھا نہیں دوشالۂ گلنار بے سبب
نکلے تھے مجھ پر آج وہ تلوار باندھ کر
رہ گیر کشتہ ہو گئے دو چار بے سبب
آمد نہیں کسی کی تو کیوں جاگتے ہو بحرؔ
رہتا ہے شب کو کوئی بھی بیدار بے سبب
غزل
آزردہ ہو گیا وہ خریدار بے سبب
امداد علی بحر