EN हिंदी
آزمائش میں کٹی کچھ امتحانوں میں رہی | شیح شیری
aazmaish mein kaTi kuchh imtihanon mein rahi

غزل

آزمائش میں کٹی کچھ امتحانوں میں رہی

آنند سروپ انجم

;

آزمائش میں کٹی کچھ امتحانوں میں رہی
زندگی کن راستوں میں کن ٹھکانوں میں رہی

وہ تو اک ہلکی سی دستک دے کے رخصت ہو گیا
اک صدا رس گھولتی دن رات کانوں میں رہی

لکھ گئی اپنے گھروں میں ایک کرب ناتمام
زندگی گویا ہمارے مہربانوں میں رہی

مٹ گئیں آنگن میں ساری کھیلتی پرچھائیاں
ایک بے کیفی مسلسل آشیانوں میں رہی

وہ زمیں کی سرحدوں میں ہی رہا انجمؔ مقیم
کیوں تلاش انسان کو پھر آسمانوں میں رہی