آزمائش میں کٹی کچھ امتحانوں میں رہی
زندگی کن راستوں میں کن ٹھکانوں میں رہی
وہ تو اک ہلکی سی دستک دے کے رخصت ہو گیا
اک صدا رس گھولتی دن رات کانوں میں رہی
لکھ گئی اپنے گھروں میں ایک کرب ناتمام
زندگی گویا ہمارے مہربانوں میں رہی
مٹ گئیں آنگن میں ساری کھیلتی پرچھائیاں
ایک بے کیفی مسلسل آشیانوں میں رہی
وہ زمیں کی سرحدوں میں ہی رہا انجمؔ مقیم
کیوں تلاش انسان کو پھر آسمانوں میں رہی
غزل
آزمائش میں کٹی کچھ امتحانوں میں رہی
آنند سروپ انجم