آزار دل سے رنگ طبیعت بدل گیا
آخر دماغ فکر مسلسل سے چل گیا
جلوہ ہزار پردوں میں چھپتا نہیں کبھی
تاب رخ نگار سے گھونگھٹ ہی جل گیا
دعویٰ کروں گا داور محشر کے سامنے
دنیا سے میری تیری کشاکش کا حل گیا
افکار تیرے حسن کی جادوگری صنم
ہر شعر تیری زلف کی خوشبو میں ڈھل گیا
کل زندگی سے اپنی کچھ ایسے خفا تھا میں
تم نے یہ سمجھا سینے سے ارماں نکل گیا
آوارگی لے جائے ہے جانے کہاں کہاں
نکلا میں صحرا سے جوں ہی سوئے جبل گیا
اٹھتا ہے درد پہلو میں گویا نہیں ہے دل
جادو کسی کی شوخ نگاہوں کا چل گیا
ہیں بوالہوس ہزاروں کوئی اہل دل نہیں
اب رسم عاشقی سے بھی حسن عمل گیا
دائم شب فراق میں شعلے سے عشق کے
مثل چراغ داغ دل خستہ جل گیا
کیا اس کے جی میں آئی کہ مدت کے بعد یار
کھلنے لگا تھا ہم سے ولیکن سنبھل گیا
آشفتگی سے میرے دل ناتواں کا حال
بگڑا خدایا ایسا مرا دم نکل گیا
فریاد شعلہ بار نے کیا کیا غضب کئے
جاویں کہاں جلالیؔ چمن سارا جل گیا

غزل
آزار دل سے رنگ طبیعت بدل گیا
رؤف یاسین جلالی