آزار بہت لذت آزار بہت ہے
دل دست ستم گر کا طلب گار بہت ہے
اقرار کی منزل بھی ضرور آئے گی اک دن
اس وقت تو بس لذت انکار بہت ہے
یاران سفر کوئی دوا ڈھونڈ کے لاؤ
انسان مرے دور کا بیمار بہت ہے
ہاں دیکھیو عرفان بغاوت نہ جھلس جائے
منظر مری دنیا کا شرر بار بہت ہے
ہم گھر کی پناہوں سے جو نکلے تو یہ جانا
ہنگامہ پس سایۂ دیوار بہت ہے
قاتل کی عنایت کا مزہ اور ہے ورنہ
جاں لینے کو یہ سانس کی تلوار بہت ہے
کیا لوگ ہیں یہ سوچ کے بیٹھے ہوں گھروں میں
بس ظلم سے بے زاری کا اظہار بہت ہے
حالات زمانہ سے لرز جاتے ہیں اجملؔ
یوں ہے کہ زمانہ سے ہمیں پیار بہت ہے
غزل
آزار بہت لذت آزار بہت ہے
اجمل اجملی