آزادہ منش رہ دنیا میں پروائے امید و بیم نہ کر
جب تک نہ ملیں فطرت کے قدم خم دیکھ سر تسلیم نہ کر
سینے میں ہے اس کے سوز اگر شیطاں کے قدم لے آنکھوں پر
بیگانۂ درد دل ہے اگر جبریل کی بھی تعظیم نہ کر
کتنی ہی شعاعیں ابر میں ہوں خورشید جنوں پر ایماں لا
کتنے ہی دلائل روشن ہوں دانش کو کبھی تسلیم نہ کر
سانچوں میں برابر ڈھلتا جا رفتار جہاں سے پھیر نہ منہ
تنسیخ تو کیا اس دفتر میں جینا ہے تو کچھ ترمیم نہ کر
اے جوشؔ ہجوم کلفت میں فریاد و فغاں سے کام نہ لے
گھٹ جائے گا اس سے دل کا اثر اجزائے تپش تقسیم نہ کر
غزل
آزادہ منش رہ دنیا میں پروائے امید و بیم نہ کر
جوشؔ ملیح آبادی