آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو
پھاڑیں گے جیب گوشۂ زنداں ہی کیوں نہ ہو
ہو شغل کوئی جی کے بہلنے کے واسطے
راحت فزا ہے نالہ و فغاں ہی کیوں نہ ہو
سودائے زلف یار سے باز آئیں گے نہ ہم
مجموعۂ حواس پریشاں ہی کیوں نہ ہو
احسان تیر یار ادا ہو سکے گا کیا
جان اپنی نذر لذت پیکاں ہی کیوں نہ ہو
جیتے رہیں گے وعدۂ صبر آزما پہ ہم
عمر اپنی مثل وقت گریزاں ہی کیوں نہ ہو
وحشتؔ رکیں نہ ہاتھ سر حشر دیکھنا
اس فتنہ خو کا گوشۂ داماں ہی کیوں نہ ہو
غزل
آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو
وحشتؔ رضا علی کلکتوی