EN हिंदी
آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو | شیح شیری
aazad us se hain ki bayaban hi kyun na ho

غزل

آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو
پھاڑیں گے جیب گوشۂ زنداں ہی کیوں نہ ہو

ہو شغل کوئی جی کے بہلنے کے واسطے
راحت فزا ہے نالہ و فغاں ہی کیوں نہ ہو

سودائے زلف یار سے باز آئیں گے نہ ہم
مجموعۂ حواس پریشاں ہی کیوں نہ ہو

احسان تیر یار ادا ہو سکے گا کیا
جان اپنی نذر لذت پیکاں ہی کیوں نہ ہو

جیتے رہیں گے وعدۂ صبر آزما پہ ہم
عمر اپنی مثل وقت گریزاں ہی کیوں نہ ہو

وحشتؔ رکیں نہ ہاتھ سر حشر دیکھنا
اس فتنہ خو کا گوشۂ داماں ہی کیوں نہ ہو