EN हिंदी
آیا نہیں ہے راہ پہ چرخ کہن ابھی | شیح شیری
aaya nahin hai rah pe charKH-e-kuhan abhi

غزل

آیا نہیں ہے راہ پہ چرخ کہن ابھی

احسان دانش

;

آیا نہیں ہے راہ پہ چرخ کہن ابھی
خطرے میں دیکھتا ہوں چمن کا چمن ابھی

اٹھیں گے اپنی بزم سے منصور سیکڑوں
کام اہل حق کے آئیں گے دار و رسن ابھی

رنج و محن نگاہ جو پھیریں تو پھیر لیں
لیکن مجھے عزیز ہیں رنج و محن ابھی

بڑھنے دو اور شوق شہادت عوام میں
کچھ بانجھ تو نہیں ہے یہ خاک وطن ابھی

آنکھوں کی سرخیاں ہیں عزائم کا اشتہار
سینے سلگ رہے ہیں لگی ہے لگن ابھی

یہ کارواں شناور طوفاں تو ہے مگر
چہروں پہ بولتی ہے سفر کی تھکن ابھی

ہیں سامنے ہمارے روایات‌ کارزار
باندھے ہوئے ہیں سر سے مجاہد کفن ابھی

بن بن کے جانے کتنے فنا ہوں گے سومنات
بستے ہیں ہر گلی میں یہاں بت شکن ابھی

اے شہریار ہم سے شکستہ دلوں میں آ
تیری طرف سے خلق کو ہے حسن ظن ابھی

رقصاں ابھی ہیں شام غریباں کی جھلکیاں
روشن نہیں ہے خندۂ‌ صبح‌ وطن ابھی

جیتے رہیں امید پہ رندان‌ تشنہ کام
چلتا نہیں ہے دور شراب کہن ابھی

جن کے لہو سے قصر وفا میں جلے چراغ
ان غم زدوں میں عام ہیں رنج و محن ابھی

گلشن سے پھول چل کے مزاروں تک آ گئے
لیکن ہے باغباں کی جبیں پر شکن ابھی

ہے علم کی نگاہ سے پنہاں رہ‌ عمل
کہتے نہیں کفن کو یہاں پیرہن ابھی

نبض بہار پر ہیں بگولوں کی انگلیاں
چلنے کو چل رہی ہے نسیم چمن ابھی

شبنم کے اشک سوکھنے دیتی نہیں فضا
ہنستا ہے خود بہار چمن پر چمن ابھی

ہر گام ہر مقام پہ کوشش کے باوجود
دانشؔ نہ آ سکا مجھے جینے کا فن ابھی