آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
خوف آ رہا ہے سایۂ دیوار دیکھ کر
آنکھیں کھلی رہی ہیں مری انتظار میں
آئے نہ خواب دیدۂ بیدار دیکھ کر
غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں
آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر
کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے مرے قدم
میں تو چلا تھا راہ کو ہموار دیکھ کر
ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا
دل خوش ہوا ہے ایک گنہ گار دیکھ کر
غزل
آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
عدیم ہاشمی