آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا
ہر تن میں ہوا جان ہر اک جسم کا نیارا
بے مثل اس کے حسن کو کہتے ہیں دو عالم
دستا ہے ہر اک خلق کو اپنے سوں پیارا
من کان نہ ہو یار کے درسن کو نہ جانے
آیا نہیں کوئی پھر کے جہاں بیچ دوبارا
اس شمع درخشاں کو اپس ساتھ تو لے جا
ور نہیں تو قبر بیچ ہے ظلمات اندھارا
کرنے میں جمع زر کے گنواتا ہے عمر کیوں
آخر کو نکل جائے گا سب چھوڑ ضرارا
فرزند و عزیزان سکل خویش قبیلہ
دنیا ہے دغاباز نہیں کوئی تمہارا
بے حد ہے علیمؔ عشق کے تعلیم کا طومار
پایا نہیں کوئی عشق کے دریا کا کنارا
غزل
آیا ہے مگر عشق میں دل دار ہمارا
علیم اللہ